تجزیہ 16

اسرائیل کے ایرانی قونصل خانے پر حملے کے بعد ایران کی جوابی کارروائی اور آئندہ کی حکمت عملی پر ایک جائزہ

2129984
تجزیہ 16

اسرائیل پر ایران کے تازہ حملے نے خطے اور دنیا کو دوبارہ کشیدگی کے مرکز میں لا کھڑا کیا ہے۔ تاہم اس تصادم کا محض عسکری فریم ورک کے اندر جائزہ لینا ناکافی ہوگا۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان تناؤ عالمی طاقت کی محرکات، علاقائی عدم استحکام اور بین الاقوامی سفارت کاری کووضع کرنے والے  کسی ڈھانچے کا حامل ہے۔

سیتا سیکیورٹی ڈائریکٹر  ڈاکٹر مراد یشل طاش کا مندرجہ  بالا موضوع پر جائزہ۔۔۔

ایرانی قونصل خانے پر اسرائیل کا حملہ اور اس کے نتیجے میں جوابی کارروائیاں، دو ریاستوں کے درمیان براہ راست تصادم  سے ہٹ کر ،  عظیم طاقتوں کے بھی شامل ہونے والے ایک بڑے اسٹیج   کا  ایک حصہ ہے۔امریکہ کا  اسرائیل سے تعاون ، ایران کے ساتھ کشیدہ تعلقات اور روس اور چین کی علاقائی پالیسیاں اس تنازع کی کثیر الاجہتی فطرت کو سامنے لاتی ہیں۔

خاص طور پر ایران کی طرف سے اسرائیل کے خلاف اپنائے گئے فوجی حربوں اور حکمت عملیوں کا مقصد خطے میں طاقت کے توازن میں ملک کے اپنے مقام کو مضبوط کرنا ہے۔ ان حملوں کو ایک مربوط اور حساب و کتاب کے ساتھ سر انجام دیا جانا،  ایران کی نہ صرف ایک فوجی طاقت کے طور پر بلکہ ایک تزویراتی اداکار کے طور پر بھی اہمیت  کی حقیقت کو اجاگر کرتا ہے۔

ایران کی جانب سے سر انجام دیے گئے  "شبانہ آپریشن" کو اسرائیل کے فضائی دفاعی نظام کے لیے ایک بڑے چیلنج  کے طور پر تصور کیا گیا۔ اگرچہ اسرائیل کے آئرن ڈوم جیسےدفاعی نظام نے ایران کے میزائل اورڈراؤن حملوں کے خلاف نسبتاً کامیاب دفاع کا مظاہرہ کیا ہے، لیکن یہ صورتحال اسرائیل کے  ہمیشہ بالا دستی  قائم کر سکنے کا معنی نہیں رکھتی۔یہ حقیقت کہ حملہ کرنا  سستا ہے اور دفاع اقتصادی طور پر مہنگا ہے، جنگ کی طوالت نے  اسرائیل کے لیے ایک اہم مسئلہ بنا دیا ہے۔ اس لیے ایران کی جارحانہ صلاحیت اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے لیے مسلسل خطرہ بنی ہوئی ہے۔ دوسری جانب ایرانی پاسداران انقلاب کی فوج کے کمانڈر حسین سلامی کے بیان سے ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل ایران فوجی تنازعہ  کا روایتی سانچہ بدل  چکا ہے۔ سلامی نے اس بات پر زور دیا کہ ایران نے اسرائیل کے خلاف اپنی انتقامی کارروائی سے ایک نئی مساوات قائم کی ہے اور مذکورہ مساوات کے دائرہ کار میں اب سے ایرانی مفادات، اثاثوں، اہلکاروں اور شہریوں پر اسرائیل کے حملوں کا براہ راست ایرانی سرزمین سے جواب دیا جائے گا۔

اسرائیل کا رد عمل بین الاقوامی میدان میں تنہا حرکت نہ کر سکنے کا مظہر ہے۔ خطے میں امریکی موجودگی اور حمایت اسرائیل کے فیصلہ سازی کے عمل میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ یہ صورتحال اپنی علاقائی سلامتی کی پالیسیوں کی تشکیل کے دوران اسرائیل کے بین الاقوامی سفارت کاری پر انحصار کا بھی مظاہرہ کرتی ہے۔ اس تنازعہ نے اسرائیل کے اندر مختلف سیاسی محرکات  کو بھی متحرک کیا ہے ۔ نیتن یاہو حکومت کی سیکیورٹی پالیسیوں کو اندرون اور بیرون ملک تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ان کے قابل دوام نہ ہونے کا ثبوت سامنے آیا ہے۔ اسرائیل کی رائے عامہ اس بات پر منقسم ہے کہ حکومت اس بحران سے کیسے نمٹ رہی ہے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں ایران کے خلاف سخت ردعمل کی ضرورت ہے تو بعض نےممکنہ مکمل پیمانے پر جنگ کے خطرات پر  توجہ مبذول کرائی ہے۔

ایران کے لیے اس تنازعے کو صرف طاقت کے شو کے طور پر نہیں بلکہ اسٹریٹجک حساب کتاب کے طور پر بھی دیکھا جانا چاہیے۔ ان حملوں سے ایران نے نہ صرف اسرائیل بلکہ خطے اور عالمی سطح پر اپنے حریفوں کو بھی پیغام دیا ہے۔ یہ واضح ہو رہا ہے کہ ایران کا مقصد اپنی قومی سلامتی کے مفادات کا تحفظ کرنا اور اپنے علاقائی دفاع کو مضبوط بنانا ہے۔ایران کی طرف سے خاص طور پر اسرائیل کے فوجی اور سویلین انفراسٹرکچر کے خلاف کیے جانے والے حملوں کو ایران کی عسکری صلاحیت اور عزم کا مظہر سمجھا جا سکتا ہے۔ ان اقدامات کے ذریعے ایران کا مقصد علاقائی اور عالمی اداکاروں پر اپنے مؤثر اثر کو بڑھانا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ملکی سیاست میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنا ہے۔ کیونکہ ایرانی حکومت اپنی قومی عزت اور آزادی کے تحفظ کے حوالے سے ملکی اور علاقائی سطح پر حمایت حاصل کرنے کی خواہاں ہے۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان اس تازہ تنازعے کے اثرات عرب دنیا کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات پر بھی مرتب ہوئے ہیں۔ جہاں اسرائیل ایران کے حملوں کا جواب دے رہا ہے تو یہ  عرب ممالک کے ساتھ اپنے اتحاد کو برقرار رکھنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ جس نے  خطے میں طویل مدتی سٹریٹجک اہداف اور اتحاد کے لحاظ سے اسرائیل کے لیے توازن کے ایک اہم عنصر کی حیثیت  حاصل کر لی ہے۔

نتیجتاً ایران اسرائیل تصادم، سطحی فوجی کارروائیوں سے کہیں زیادہ  مفہوم رکھتا ہے۔ یہ صورت حال علاقائی اور عالمی طاقتوں کے درمیان تعلقات، سفارت کاری اور سلامتی پالیسیوں کو گہرائی سے متاثر کرنے والے  متحرک اور کثیر جہتی تنازعے کے طور پر رہنے کے عمل کو جاری رکھے گی۔ بین الاقوامی برادری کو یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ اس طرح کے تنازعات نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی امن اور سلامتی پر بھی اہم اثرات مرتب کرتے ہیں  مزید ذمہ داری قبول کرنی چاہیے اور حل پر مبنی نقطہ نظر  وضع کرنا چاہیے۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازعہ دوسرے علاقائی اداکاروں اور بڑی طاقتوں کو مشترکہ اور منقسم مفادات کے گرد نئے اتحاد تشکیل دینے کے لیے یکجا کر رہا ہے۔ یہ اتحاد فیصلہ کن طور پر تنازعات اور بین الاقوامی سیاست میں اس کے اثرات کو تشکیل دے سکتے ہیں۔



متعللقہ خبریں