تجزیہ 17

ایردوان کا دورہ عراق

2132391
تجزیہ 17

صدر ایردوان نے ایک نازک وقت میں عراق کا اہم دورہ کیا۔ 22 اپریل کے دورے کے دوران، ایردوان نے بغداد اور عربیل دونوں مقامات پر اعلی حکام سے بہت اہم ملاقاتیں کیں اور ترقیاتی روڈمنصوبے سے لے کر دہشت گردی کے خلاف جنگ تک بہت سے موضوعات پر اہم معاہدے کیے۔ ترکیہ-عراق اسٹریٹجک پارٹنرشپ کو ٹھوس حیثیت  دینے کے نام پر  ایک اہم حددہلیز پار  کر لی گئی۔

سامعین سیتا خارجہ پالیسی محقق جان اجون کا مندرجہ بالا موضوع پر جائزہ پیش خدمت ہے۔۔۔

اگرچہ ترکیہ  اور عراق دو پڑوسی ممالک ہیں، لیکن  جب ہم ان کے تعلقات کو دیکھتے ہیں تو ان کے نسبتاً غیر مستحکم ہونے کا مشاہدہ ہوتا  ہے۔ خاص طور پر عراق کے اندر قبضے، تنازعات اور اقتدار کی کشمکش اس   حوالے سے پیش پیش رہی ہے۔ تاہم، حالیہ مہینوں میں، دونوں ممالک کے درمیان اسٹریٹجک تعلقات قائم کرنے اور مفادات کا اشتراک کرنے کے لیے ایک نئی خواہش  نے جنم لیا ہے۔ ترک وزیر خارجہ حاقان فیدان  کی جانب سے روڈ میپ کا تعین کیے جانے والے اس نئے عمل  میں وزرا ء اور تیکنیکی وفود کی سطح پر کئی بار ملاقاتیں کیں اور 22 اپریل کوصدر ایردوان کے عراق کے کلیدی دورے سے قبل تعلقات کی نئی فطرت  کو پختہ کیا۔ دورے سے قبل فریقین کے بیانات نے ایردوان کے دورے کے حوالے سے توقعات کو کافی حد تک بڑھا دیا اور نتائج بھی توقع کے مطابق آئے۔

عراق  کی طرف سے بڑے شاندار طریقے سے میزبانی کیے جانے والے صدر ایردوان  نے اپنے عراقی ہم منصب عبداللطیف راشد اور وزیر اعظم محمد شیعہ الاسودانی کے ساتھ ایک اہم ملاقات کی۔ بالمشافہ ملاقاتوں   کے بعد بغداد  سرکاری محل میں  بین الاوفود کے مذاکرات سر انجام پائے۔ متعلقہ  مذاکرات  کے بعد 26 مختلف شعبوں میں تعاون معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔ دستخط کی تقریب کے بعد صدر ایردوان اور وزیر اعظم سودانی نے ایک مشترکہ پریس بیان بھی دیا۔ دونوں فریقوں نے کہا کہ بات چیت کافی سود مندبنیادوں پر ہوئی اور اب اسٹریٹجک شراکت داری کو ٹھوس  شکل میں ڈھالا جائے گا۔ اس تناظر میں ’’مشترکہ تعاون کے لیے اسٹریٹجک فریم ورک معاہدے‘‘ پر دستخط خاص اہمیت کے حامل تھے۔ اس معاہدے کے ذیلی  معاملات میں سیکیورٹی، دہشت گردی کے خلاف جنگ، تجارت، معیشت، سرحد پار پانی اور تعلیم جیسے شعبوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں ان تمام متعلقہ موضوعات پر تکنیکی مذاکرات جاری رکھنے کے لیے مشترکہ قائمہ کمیٹیاں قائم  کیے جانے کا بھی اظہار کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم سودانی نے اپنی تقریر میں کہا کہ "ہم عراقی سرزمین سے کسی دوسرے ملک پر حملے کی اجازت نہیں دے سکتے" اور "عراق اور ترکیہ کی سلامتی ایک ناقابل تقسیم  امرہے۔" سوڈانی نے علاوہ ازیں  یہ بھی کہا ہے  کہ "ہم نے سیکورٹی تعاون پر اتفاق کیا جو ترکیہ اور عراق کے استحکام کو یقینی بنائے گا۔" اب  ایسا لگتا ہے کہ عراق کی جانب سے مطالبہ کردہ  PKK کی دہشت گردی کے خلاف جنگ  کے تناظر میں نمایاں سطح کی تیزی آئے گی۔ حال ہی میں وزیر خارجہ فیدان کے علاوہ   وزیر دفاع یاشار گولیراور قومی خفیہ سروس کے صدر ابراہیم قالن کے دورے، بعد ازاں  سر انجام پانے والے "سیکیورٹی میکانزم مذاکرات" کی بدولت اس عمل کو پختہ کرتے ہوئے  PKK کو عراق کی طرف سے ایک کالعدم تنظیم کی حیثیت دلا دی گئی  اور  فریقین کے درمیان ایک مستقل سیکورٹی میکانزم  تشکیل دیا گیا۔ یہ کہنا ممکن ہے کہ  ایردوان کا دورہ اور سودانی کے متعلقہ بیانات کے ساتھ یہ عمل مزید مظبوطی پکڑے گا۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ کے علاوہ دونوں ممالک  کی جانب سے خاصی اہمیت دیے گئے  ترقیاتی روڈ  منصوبے کو ٹھوس اور  عملی شکل دینے  کے لیے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط بھی ایک بہت اہم پیش رفت تھی۔ مفادات کو مشترکہ ماہیت دلانے والے کسی مؤقف کا ثمر ہ ہونے والا یہ منصوبہ  خلیج بصرہ سے ترکیہ تک پھیلائے گئے  سڑک اور ریلوے نیٹ ورک کا احاطہ کرے گا۔ ترقیاتی سڑک منصوبہ علاقائی سپلائی اور ٹرانسپورٹیشن چین کے حوالے سے ایک اہم متبادل  فراہم کرے گا اور دونوں ممالک کی اسٹریٹجک قدر و قیمت میں اضافہ کرے گا۔

صدر ایردوان  کاعراق میں تمام نسلی اور فرقہ وارانہ ڈھانچوں کے ساتھ مساوی  فاصلے رکھنے اور سب سب کو بھائیوں کی   نظر سے دیکھنے پر مبنی  بیان  بھی اہمیت کا حامل تھا۔ ترکیہ  نے ایک بار پھر ایک مستحکم عراق  کی خواہش  رکھنے کا بھر پور طریقے سے مظاہرہ کیا ہے۔ صدر ایردوان نے یہ بھی کہا کہ عراق کے استحکام کے لیے یہ ضروری ہے کہ بغداد اور عراقی کردی علاقائی انتظامیہ  کے درمیان تعلقات  معمول پر آئیں ا اور ترکمان باشندوں کو حق بجانب حیثیت دی جائے۔

صدر ایردوان کا دوسرا پڑاؤ اربیل تھا۔  ہوائی اڈے پر نیچروان بارزانی اور مسرور بارزانی نے ایردوان کا استقبال کیا۔ اپنے دورہ اربیل کے دوران ایردوان نے نیچروان بارزانی اور مسرور بارزانی کے علاوہ کردستان ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین مسعود بارزانی سے بھی ملاقات کی۔ فریقین نے 2016 کے بعد پہلی بار ملاقات کی۔ یہ دورہ ،ترکیہ کی طرف سے KDP کی   حمایت کے حوالے سے خاص طور پر اہم تھا KDP پر پیٹریاٹک یونین آف کردستان (PUK)، دہشت گرد تنظیم PKK اور بغداد میں کچھ پوزیشنوں کاان پر  دباؤ تھا  ایسے وقت میں  جب  ترکیہ دہشت گرد تنظیم PKK کے خلاف ایک بڑے زمینی آپریشن کی تیاری کر رہا ہے، وہ KDP سے اپنی حمایت میں مزید اضافے کی توقع رکھتا ہے۔ ایردوان کے دورے کے دوران PUK-PKK تعلقات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ اگر PUK  دہشت گرد تنظیم PKK کے ساتھ گٹھ جوڑ  جاری  رکھتی  ہے تو ترکیہ اس ڈھانچے کے خلاف فوجی  متبادل میز پر لانے کا حق رکھتا ہے۔

 

نتیجتاً ایردوان کا دورہ عراق ایک انتہائی نازک وقت پر آیا ہے اور دونوں ممالک کے لیے ایک نئے موڑ کی نمائندگی کرتا ہے۔ اگرچہ مشترکہ مفادات کے ساتھ ساتھ علاقائی مسائل  بھی اہم عوامل ہوں گے جو دونوں ممالک کو مل کر کام کرنے کی ترغیب دیں گے لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ، ترقیاتی  شاہراہ منصوبے، تجارتی حجم میں اضافہ اور پانی   جیسے  موضوعات میں اہم پیش رفت ہو گی۔



متعللقہ خبریں